March 10, 2025: In the literary world, book reviews play a crucial role in shaping public perception and understanding of a book. Recently, Mr. Ammar Masood, a well-known columnist, political analyst, novelist, and journalist shared their thoughts on Zafar Masud’s memoir, “Seat 1C,” which chronicles his extraordinary journey as the sole survivor of the tragic Pakistan International Airlines Flight 8303 crash.
Few Words About Mr. Ammar Masood
Ammar Masood is a prominent figure in the world of journalism, known for his insightful columns, political analyses, novels, and his role as a journalist. His writings reflect a deep understanding of public issues and democracy. He is a columnist for Jang & Geo Media Group and the CEO of Aaap Communications. He also serves as the head of special projects at Dunya News and is the chief editor of WE News.
His writings often focus on democracy, social issues, and political analysis. His deep understanding of public issues adds weight and depth to his work. His grandfather, Taqi Sahib, translated Karl Marx’s book “Das Kapital” into Arabic in 1961 at the behest of Maulvi Abdul Haq, showcasing a strong literary heritage in his family.
A Personal Connection
Ammar Masood, who has been deeply moved by Masud’s story, describes the memoir as a profound exploration of hope, resilience, and renewal. They highlight how Masud’s near-death experience reshaped his outlook on life, offering readers a unique perspective on survival and the human spirit’s strength.
Key Themes Explored
The review emphasizes several significant themes present in “Seat 1C” Book Review:
- Survival and Resilience: Masud’s narrative is not just about surviving a horrific event but also about the emotional and psychological journey that follows.
- Institutional Challenges: The book delves into issues of institutional incompetence and corruption within the aviation industry, prompting readers to reflect on the broader implications of such failures.
- Personal Growth: The reviewer notes how Masud’s experiences encourage readers to think critically about their own lives and the challenges they face, making it a relatable and inspiring read.
Impact on Readers
The review concludes with a call to action, urging readers to engage with Masud’s story not only as a memoir of survival but as a catalyst for discussions about aviation safety and mental health. The reviewer believes that “Seat 1C” is a must-read for anyone seeking inspiration and insight into overcoming adversity.
As the book continues to gain attention, it is clear that Zafar Masud’s journey resonates deeply with many, sparking conversations that extend beyond the pages of his memoir.

سیٹ ون سی
کتابیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو آپ کو مجبوراً پڑھنا پڑتی ہیں اور دوسری وہ جو آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ظفر مسعود کی کتاب ’سیٹ ون سی‘ کا شمار مؤخر الذکر کتابوں میں ہوتا ہے۔
ظفر مسعود پیشے کے اعتبار سے بینکر لیکن مورثی اعتبار سے فلسفی، نفسیات دان اور دانشور ہیں۔ ان کا تعلق اس خانوادے سے ہے جس کی رگوں میں نانا سید محمد تقی، رئیس امرہوری اور جون ایلیا کا خون رواں ہے۔ ان کے والد پاکستان کے نامور اداکار منور سعید ہیں۔ جو ٹی وی فلم اور اسٹیج کا ایک معتبر نام ہے۔
ان کے نانا تقی صاحب وہی ہیں جنہوں نے 1961 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے کہنے ہر کارل مارکس کی کتاب داس کیپٹل کا ترجمہ عربی زبان میں کیا تھا۔
ہر وہ شخص جس کو ادب اور صحافت سے رتی بھر بھی علاقہ ہے وہ رئیس امرہوی کے نام اور کام سے واقف ہے۔ جون ایلیا آج بھی نوجوانوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔ ان کی شاعری کے تو بہت معترف مل جائیں گے مگر میری رائے میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’شاید‘ کا دیباچہ ہے۔ جس نے وہ پڑھا، سمجھا اور سیکھا ہے وہ پھر وہ نہیں رہا۔ جون کا مرید ہو گیا۔ فلسفہ، جون کی نثر کا وصف رہا ہے یا پھر یہ کہیے کہ یہ میراث ہے جو آج کی نسل میں بھی تقسیم کی گئی ہے۔
ایک مدت تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ بینکر ’بورنگ‘ ہوتے ہیں۔ روٹین کے کام کرکے ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہو جاتی ہیں اور ہندسوں سے آگے سوچنا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ لیکن مشتاق احمد یوسفی نے ان تمام خیالات کو فاسد ثابت کیا۔ وہ 4 بینکوں کے صدر اور بینکنگ کونسل کے چیئرمین رہے۔ نہ کبھی اپنے پیشے کو اپنے فن کی راہ میں حائل ہونے دیا نہ کبھی اپنے شوق کو بینکنگ کی راہ میں رکاوٹ بننے دیا۔ جملہ فرسودہ ہو چکا ہے کہ ’ہم اردو فکاہیہ ادب کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘۔ اب بات یوں بنتی ہے کہ اردو نثر کی آبرو یوسفی ہی ہیں اور ان سا نثر نگار اردو ادب میں کوئی اور نہیں۔ اور یوسفی ایک لاجواب نثر نگار کے علاوہ ایک باکمال بینکر بھی تھے، یعنی
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
ظفر مسعود نے کبھی اپنے خاندان کے حوالے سے خود کو متعارف نہیں کیا، لیکن ’سیٹ ون سی‘ میں اس خانوادے کا ذکر ضرور ہے جس نے ظفر مسعود کی ذہنی تربیت کی ہے۔ پیشے کےا عتبار سے ظفر مسعود ایک گھاگ بینکر ہیں۔ بینکر بھی ایسے کہ بینک آف پنجاب جیسے معروف ادارے کے سی ای او ہیں۔ دنیا بھر کی بینکوں کا پانی انہوں نے پیا ہوا ہے۔ ہر جگہ اپنے علم و ہنر کا لوہا منوا چکے ہیں۔
’سیٹ ون سی‘ 22 مئی 2020 کے ایک لمحے کی کہانی ہے۔ اس ایک لمحے میں ظفر مسعود کی زندگی ہی نہیں دنیا بھی بدل گئی۔ ان کا جہاز لاہور سے اڑا اور کراچی ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے نزدیکی عمارتوں پر جا رہا۔ یہ پی آئی اے کی پرواز فلائٹ 8303 تھی۔ طیارے میں کل 99 لوگ سوار تھے، ان میں سے 97 اس حادثے کا شکار ہوئے۔ 2 مسافر ظفر مسعود اور محمد زبیر اس جان لیوا حادثے میں زندہ بچ گئے۔
اس قدر شدید حادثے میں بچ جانے پر کسی نے اس واقعے کو اتفاق مانا، کسی نے کرشمہ کہا اور کسی نے معجزہ قرار دیا۔ ہم نے بھی خوش قسمتی کو کیا کیا نام دیے ہوئے ہیں۔ شدید زخمی حالت میں زندہ بچ جانے والے بینک آف پنجاب کے سی ای او ظفر مسعود کی جہاز میں نشست کا ’نمبر ون سی‘ تھا۔ یہ کتاب اس لمحے کی داستان ہے۔ اس لمحے کے گزر جانے کے بعد کی زندگی کا احوال ہے۔ جو اس ایک لمحے کی یاد میں پیوست ہے۔
یہ درست ہے کہ اس طرح کے حادثے میں بچ جانا بہت خوش بختی کی بات ہے اور اس پر ایک لاجواب کتاب لکھنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ لیکن میں اس تمام کتاب کو اس خدشے کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں کہ کہیں صاحب کتاب اس حادثے میں بچ جانے کو اپنی کرامات کا نتیجہ تو قرار نہیں دے رہے۔ ایسے میں بندہ خود کو کم از کم ولی یا صوفی تو ضرور سمجھ سکتا ہے۔ لیکن ظفر مسعود اس خوش گمانی سے تمام کتاب میں بال بال بچتے رہے۔ اگر وہ اس واقعے کو کوئی ذاتی کرامت یا پارسائی کا نتیجہ قرار دیتے تو پھر اس کتاب کی نہج مخلتف ہوتی۔ پھر اس میں معجزے اور کرشمے پر بحث ہوتی۔ ما بعد الطبیعات کے فلسفے بتائے جاتے مگر اس حادثے کی عقلی توجیہات تحریر میں میسر نہ آتیں۔
یہ کتاب منطق اور دانش کو بروئے کار لا کر لکھی گئی ہے۔ اس میں اس لمحے کا بارہا ذکر ہے جس میں یہ حادثہ ہوا، مگر اس حوالے سے اپنے حق میں نعرہ لگانے سے گریز کیا گیا۔ اور آپ بیتی کے بہانے خود پر جہاں بھر کی نیکیوں کی تہمت لگوانے سے پرہیز کیا گیا۔
اپنے ہاں سانحوں کے بارے اس پر سطحی جذباتیت سے ماورا ہو کر عقلی بنیادوں پر بحث کرنا سہل کام نہیں۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر سماج کا کتھارسس کرنا آسان مرحلہ نہیں۔ حادثوں پر ماتم کی ہمارے ہاں روایت ہے، مگر ان حادثوں سے سبق سیکھنا ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ یہ کتاب آپ کو اشکبار نہیں کرتی بلکہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔
کسی نے کہا کتاب پڑھنا ریل کی سفر کی طرح ہوتا ہے۔ کتاب کے ابواب رستے میں آئے اسٹیشنز کی طرح ہوتے ہیں۔ اہمیت رستے میں آئے اسٹیشنز کی نہیں ہوتی بلکہ منزل کی ہوتی ہے۔ لیکن عجب لطف کی بات ہے اس کتاب کا ہر باب آپ کو منزل تک رسائی دیتا ہے۔ ہرباب ایک واقعے کے حوالے سے دانش، فلسفے، نفسیات اور سماجیات کا نیا پہلو سامنے لاتا ہے۔ ہر باب اتنا مکمل ہے کہ اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ پھر بات سمجھائی بھی گئی، کبھی معروف فلسفی کانٹ سے لفظ مستعار لیے گئے، کبھی کارل مارکس کا حوالہ دیا گیا اور کبھی رئیس امروہوی کے اشعار کے توسط سے مدعا بیان کیا گیا۔
پہلا باب ’تکبر‘ اس مصنوعی احساس تفاخر پر بات کرتا ہے جو بدقسمتی سے ہم میں بحیثیت قوم بلاوجہ در آیا ہے۔ دوسرا باب ’واجبات‘ کا ہے، جو اس لمحے کے سکون اور سکوت پر بات کرتا ہےکہ جب موت یقینی ہو۔ اس لمحے میں کون سے قرض یاد آتے ہیں جنہیں اتارنے کی فرصت سانسیں نہیں دیتیں۔ تیسرا باب ’نیکی‘ ہے جس میں اس سیاح کی بات کو دہرایا گیا ہے کہ جس نے پیدل دنیا بھر کا سفر کیا، کہیں جنگل میں قیام کیا، کسی سے مانگ کر پیٹ بھرا، کسی رستے میں لُٹ گیا لیکن اس کے دنیا بھر کے سفر کا نتیجہ یہ رہا کہ ’انسان مجموعی طور پر اچھے ہوتے ہیں‘۔ چوتھا باب ’خلوص‘ ہے۔ اس باب میں اخلاص کی فلسفیانہ توجہیات بھی موجود ہیں اور ادبی تلمحیات بھی اس کا حصہ ہیں۔ یہ خلوص کبھی ایک بینک کے سی ای او کی جانب سے ان کے عملے کے لیے محبت کے پیغام کی صورت میں سامنے آتا ہے اور کبھی 1857 کی جنگ آزادی کے قصے دہراتا ہے۔ پانچواں باب ’معجزات‘ ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ کس طرح اس واقعے پر معجزے کے گمان سے مفر کیا گیا ہے۔ حادثے کو حادثہ رکھا اور خود کو نام نہاد صوفی، بزرگ بنانے سے اجتناب کیا گیا۔ چھٹا باب ’قوت ارادی‘ ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ قوت ارادی بہت بڑی چیز ہے مگر سب کچھ نہیں۔ کچھ اختیار میں ہے اور بے شمار جگہ آدمی بے اختیار ہے۔ یہی کائنات ہے اور یہی انسان کی فطرت اور جبلت ہے۔ ساتواں باب ’رسومات‘ کے نام سے ہے۔ یہ سماجی رسومات کا ذکر ہے جہاں فرد خدا بننے سے باز نہیں آتا۔ حقیقت کو اپنے افسانوں کے پردوں میں پنہاں کر کے اس کو رسم کہنے کی قبیح عادت اس سماج میں پرانی ہے۔ لیکن اس کا منطقی موازنہ کم کم ہوتا ہے۔ حقیقت کسی بھی رسم سے بڑی ہوتی ہے۔ آٹھواں باب ’دلیرانہ اقدام‘ ہے، اس میں کسی افسانوی ہیرو کا ذکر نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کی سچی کہانی ہے جو طیارے کے حادثے میں زخمی ہوا اور اپنی نفسیاتی صحت کے لیے ماہر نفسیات سے ببانگ دہل مشورہ کرنے کو بہادری بتایا۔
نواں باب ’ابلاغ‘ کی بات کرتا ہے۔ ایک بات کو ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک منتقل کرنے کے مروج طریقوں پر بحث کرتا ہے۔ اس باب کو میں نے بہت حیرت سے پڑھا اور دیر تک خوشگوار حیرت میں یہ سوچ کر مبتلا رہا کہ کوئی اور بھی ہے اس زمانے میں جو اس طرح سوچتا ہے۔ کوئی اور بھی ہے جو کہتا ہے کہ فنون کی ترویج سے معاشرہ سدھر سکتا ہے ۔شعر کی تحسین سے، پینٹنگ کے اسٹروکس کی توصیف سے، نغمے کی دھن کی داد سے، رقص کے جوش کی تعریف سے، کہانی لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی سے یہ سماج سدھر سکتا ہے۔ اس سے مجموعی شدت اور نفرت میں کمی کی جاسکتی ہے۔ معاشرے کو متوازن اور معتدل بنایا جا سکتا ہے۔ میری ساری عمر کی ریاضت اور تربیت کا ثمر یہی سبق ہے اور اس کتاب کا یہ باب پڑھ کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ کوئی اور بھی ہے اس روئے زمین پر جس کو اس بات کا ادراک ہے۔
دسواں باب ’ورثہ یا ترکہ‘ ہے۔ یہ اس خیال کو موضوع بناتا ہے کہ اگر زندگی نے موقع دیا تو ہم ترکے میں کیا چھوڑے جا رہے ہیں؟ آنے والی نسلوں کو کیسا سماج دے کر جارہے ہیں؟ اس سوال کا تعلق حیثیت اور نسب سے نہیں بساط سے ہے۔ کیا ہم اپنی بساط کے مطابق ایک بہتر معاشرے کی تخلیق کر رہے ہیں یا پھر اس بے نام ہیجان اور انتشار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنی بساط کے مطابق اس عہد کی جھولی میں کیا ڈال رہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو سب کو سوچنا ہے بلکہ یہی ایک قابل فکر سوال ہے، باقی تو سب آموختہ ہے۔ آخری باب ایک بہتر معاشرے ایک متوازن دنیا اور معتدل سماج کی امید کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے لیے کل نہیں بلکہ آج سے کام شروع کرنا ہے۔
کسی حادثے کا شکار ہو کر لوگ اس حادثے کے تمام تر محرکات اور امکانات سے تمام عمر خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہ ظفر مسعود کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ نہ صرف اب بھی پی آئی اے سے سفر کرتے ہیں بلکہ بالاصرار اپنی نشست ’سیٹ نمبر ون سی‘ کی ہی درخواست کرتے ہیں۔ یہ صرف خود اعتمادی کا قصہ نہیں اس نظام قدرت پر اعتبار کی بھی بات ہے۔
یہ کتاب پڑھ کر عجب طمانیت کا احساس ہے کہ کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ طیارے کے حادثے میں کوئی جانبر ہو جائے اور شاید یہ بات اس سے بھی زیادہ معتبر بات یہ ہے کہ وہ بچ جانے والا شخص ایسی کتاب لکھے جو حادثے کی سنسنی سے گریز کرے اور اس کے محرکات کو منطقی طور پر سمجھے اور اس واقعے کی ذریعے معاشرے کی خیر کے پہلو سوچے۔ یہ بات اس کتاب کو اور اس کے مصنف کو بہت معتبر بناتی ہے۔ یہ کتاب صرف حادثے کی تفصیلات نہیں بتاتی بلکہ زندگی کرنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے:
تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے
میری ظفر مسعود سے کوئی ملاقات نہیں۔2 دفعہ ایک نابینا دوست کی سفارش کے لیے انہیں فون کیا، جس کا جواب نہایت خندہ پیشانی سے ملا۔ لیکن اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ملاقات کی خواہش ہے۔ لفظ ادھوری ملاقات ضرور ہوتے ہیں مگر پوری ملاقات ادھار نہیں رہنی چاہیے۔
Add a Comment